پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس "مصدقہ خفیہ خبر" موجود ہے کہ بھارت اگلے 24 سے 36 گھنٹوں میں ایک فوجی حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
عطا اللہ تارڑ نے بدھ کی صبح سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "پاکستان کے پاس مصدقہ انٹیلی جنس موجود ہے کہ بھارت پہلگام واقعے کو جھوٹے بہانے کے طور پر استعمال کرکے اگلے 24 سے 36 گھنٹوں کے اندر ایک فوجی حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ"کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ خطے میں کسی بھی سنگین نتائج کی مکمل ذمہ داری بھارت پر ہوگی۔بھارت خود کو علاقے کا "منصف، حاکم اور جلاد" تصّور کرنا ایک غیر ذمہ دارانہ طرزِ فکر ہے اور ہم اسے سختی سے مسترد کرتے ہیں"۔
انہوں نے کہا ہے کہ "پاکستان نے کھلے دل سے ایک غیر جانبدار ماہرین کے کمیشن کے ذریعے ایک مصدقہ، شفاف اور آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی تاکہ حقیقت کو سامنے لایا جا سکے۔ بدقسمتی سے، بھارت نے معقولیت کے راستے پر چلنے کے بجائے بظاہر غیر معقولیت اور تصادم کے خطرناک راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے جو نہ صرف خطے بلکہ اس سے بھی آگےکے لئے تباہ کن نتائج کا سبب بنے گا"۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر رائٹرز کی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ بھارت نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام 'پہلگام' پر 26 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے حملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔
اسلام آباد نے اس واقعے کو "جھوٹا بہانہ" قرار دیا اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
حملے کے بعد سے، جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی، پاکستان کی طرف سے بھارتی ایئر لائنز کے لیے اپنی فضائی حدود کی بندش اور دونوں ممالک کے درمیان شملہ معاہدے کی معطلی شامل ہیں۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے حملہ آوروں کو پکڑنے اور سزا دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
مسلم اکثریتی کشمیر پر ہندو اکثریتی بھارت اور مسلمان اکثریتی پاکستان دونوں مکمل دعویٰ کرتے ہیں۔ ہر ایک کے پاس اس کا صرف ایک حصہ ہے اور انہوں نے اس علاقے پر کئی جنگیں لڑی ہیں۔ کشمیر کے لئے اقوام متحدہ نے 1947 سے ریفرنڈم کے لیے قراردادیں منظور کی تھیں۔
بھارت نے اس علاقے میں 500,000 سے زیادہ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں بھارتی فورسز نے مبینہ طور پر تقریباً 2,000 کشمیریوں کو حراست میں لیا اور مشتبہ مزاحمت کاروں کے گھروں کو تباہ کیا، جسے مقامی افراد، ناقدین اور انسانی حقوق کے گروپ اجتماعی سزا قرار دیتے ہیں۔
پیر کے روز، پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے رائٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا تھا کہ بھارت کی جانب سے ایک فوجی حملہ قریب ہے۔
آصف نے اسلام آباد میں اپنے دفتر سے دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہےکہ پاکستان ہائی الرٹ پر ہے لیکن اپنے جوہری ہتھیاروں کا استعمال "صرف اپنے وجود کو خطرے کی صورت میں" کرے گا جب " ۔
روبیو ،بھارت اور پاکستان کے اعلیٰ سفارت کاروں سے رابطہ کریں گے
یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ نے منگل کو بھارت اور پاکستان دونوں سے موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ اس کا اعلیٰ سفارت کار جلد ہی اپنے بھارتی اور پاکستانی ہم منصبوں سے رابطہ کرے گا۔
امریکہ وزارتِ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے منگل کو غیر ملکی میڈیا کو بتایا ہے کہ "ہم دونوں فریقوں سے رابطہ کر رہے ہیں اور انہیں صورتحال میں شدّت پیدا کرنے سے بچنے کا کہہ رہے ہیں"۔
انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو توقع رکھتے ہیں کہ وہ "آج یا کل" بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ اس مسئلے پر بات کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ روبیو دیگر قومی رہنماؤں اور وزرائے خارجہ کو بھی اس مسئلے پر دونوں ممالک سے رابطہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
چین اور ترکیہ نے فوری طور پر کشیدگی کو کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران نے ثالثی کی پیشکش کی ہے، اور سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ "کشیدگی کو روکنے" کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشیدگی کو کم اہمیت دی ہے، جمعہ کو کہا کہ کشمیر کا تنازعہ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانا ہے اور دونوں فریقوں کے رہنما "کسی نہ کسی طرح" کشیدگی کو کم کرنے کا راستہ نکال لیں گے۔
تاہم بروس نے کہا ہے کہ امریکہ اس معاملے میں روزانہ کی بنیاد پر اقدامات کر رہا ہے اور توقع ہے کہ روبیو کی جنوبی ایشیائی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت "پُر اثر" ثابت ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "ہم اس خطے میں ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور میں یہ کہنا چاہوں گی، ہم بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ نہ صرف وزرائے خارجہ کی سطح پر بلکہ کئی سطحوں پر رابطے میں ہیں۔"
انہوں نے کہا ہے کہ "ہم یقیناً تمام فریقوں کو ایک ذمہ دارانہ حل کے لیے مل کر کام کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ دنیا اس صورتحال کو دیکھ رہی ہے"۔