امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ کشمیر کے تنازعے کی تاریخ 1500 سال پرانی ہے اور بھارت اور پاکستان کے رہنما کسی نہ کسی طرح اس متنازعہ علاقے میں تناؤ کو کم کرنے کا راستہ نکال لیں گے۔
جمعہ کے روز، ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کے جوہری حریفوں کے درمیان موجودہ بحران پر اپنی پہلی عوامی رائے دی۔ یہ بیان اس وقت آیا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نامعلوم مسلح افراد نے 26 افراد کو ہلاک کر دیا، جس کے بعد خطے میں نئی کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال علاقے میں ایک بڑے بحران کا موجب بن سکتی ہے۔
ایئر فورس ون میں گفتگو کرتے ہوئے، ٹرمپ نے متنازعہ سرحدی علاقے میں تاریخی تنازعے کا ذکر کیا اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کو قریب سے جاننے کا اعتراف کیا، لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ان سے رابطہ کریں گے یا نہیں۔
ٹرمپ نے کہا، "میں بھارت اور پاکستان کے قریب ہوں۔ وہ کشمیر میں ایک ہزار سال سے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کا تنازعہ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانا ہے، شاید 1500 سال سے۔" انہوں نے مزید کہا، "وہ کسی نہ کسی طرح اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان زبردست تناؤ ہے، لیکن یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔"
جنگی اقدام
اس بڑ ے حملے کے بعد دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے تعلقات مزید خراب ہو گئے ہیں۔
کشمیر مزاحمت ایک غیر معروف باغی گروپ نے سوشل میڈیا پر حملے کی ذمہ داری قبول کی، جسے بھارتی نیوز چینلز نے رپورٹ کیا۔ تاہم، اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
گروپ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکام نے متنازعہ علاقے میں 85,000 سے زائد "باہر کے لوگوں" کو آباد کیا ہے اور دعویٰ کیا کہ منگل کو نشانہ بننے والے افراد "عام سیاح" نہیں تھے بلکہ "بھارتی سیکیورٹی ایجنسیوں سے منسلک تھے۔"
بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر حملے کی حمایت کا الزام لگایا، اٹاری-واہگہ سرحد بند کر دی، دہائیوں پرانے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا، پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے، اور پاکستانی فوجی مشیروں کو ملک بدر کر دیا۔
پاکستان نے مداخلت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اپنے شہریوں کے لیے پانی کی بندش کو " اعلانِ جنگ" سمجھا جائے گا۔
اقوام متحدہ نے تحمل کی اپیل کی ہے، لیکن تناؤ بدستور برقرار ہے اور فوری طور پر کشیدگی کم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔
بھارت اور پاکستان کے اقدامات
جمعہ کے روز، بھارت نے اپنے دھمکی آمیز بیان کو دہرایا اور کہا کہ نئی دہلی ایسے اقدامات پر کام کر رہا ہے جن سے پاکستان کو "ایک قطرہ" پانی بھی نہ ملے۔
بھارت کے وزیر آبی وسائل سی آر پاٹل نے کہا: "ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ سندھ دریا کے پانی کا ایک قطرہ بھی پاکستان تک نہ پہنچے۔"
اسی روز، پاکستان کی سینیٹ نے بھارت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کسی بھی "اشتعال انگیزی" کا سخت جواب دینے کی قرارداد منظور کی۔
سینیٹ نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی، جسے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پیش کیا۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پانی کے حصے کو روکنا یا موڑنا جنگی اقدام کے مترادف ہوگا۔
ڈار نے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر میں کہا: "پاکستان ایک جوہری اور میزائل طاقت ہے، اور اگر بھارت نے بری نظر ڈالی تو اسے ماضی کی طرح جواب دیا جائے گا۔"