مقامی میڈیا کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ میں زیر تعلیم ہزاروں غیر ملکی طلباء کے ویزے بحال کر دیے ہیں جو معمولی قانونی خلاف ورزیوں میں ملوث تھے یا جن کے مقدمات خارج کر دیے گئے تھے۔
امریکی محکمہ انصاف نے جمعہ کے روز وفاقی عدالت میں اس پالیسی کے خلاف کئی ہفتوں کی قانونی جانچ پڑتال اور کم از کم 23 ریاستوں میں دائر 100 سے زائد مقدمات کے بعد اس فیصلے کو واپس لینے کا اعلان کیا۔
50 سے زائد مقدمات میں ججوں نے عارضی احکامات جاری کیے جن میں ان ویزا منسوخیوں کو غیر منصفانہ اور غیر قانونی قرار دیا گیا۔ متاثرہ طلباء، جن میں سے کچھ گریجویشن کے قریب تھے، کو کلاسوں میں جانے یا تحقیق کرنے سے روک دیا گیا تھا ، جس کی وجہ سے قانونی حیثیت کھونے یا ملک بدری کے خدشات پیدا ہوئے تھے۔
ان سائیڈ ہائر ایڈ کے مطابق، 24 اپریل تک، 280 سے زیادہ کالج اور یونیورسٹی کے طلباء اور 1,800 سے زیادہ بین الاقوامی طلباء اور حالیہ فارغ التحصیل افراد کی قانونی حیثیت کو امریکی محکمہ خارجہ نے تبدیل کر دیا تھا۔
انسائیڈ ہائر ایڈ کے اعداد و شمار۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا محکمہ حالیہ ویزا منسوخیوں کی لہر کو واپس لے گا جو اسی طرح کے طلباء کو نشانہ بنا رہی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جارحانہ پالیسی، جس میں اکثر بغیر اطلاع کے طلباء کے ویزے منسوخ کیے جاتے ہیں اور ملک بدری پر زور دیا جاتا ہے، نے آزادی اظہار کے حقوق کے بارے میں خدشات پیدا کیے ہیں اور غیر ملکی طلباء کو امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کا باعث بنی ہے۔
فلسطین کے حق میں سرگرمیوں پر کریک ڈاؤن
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی یونیورسٹی کیمپسوں میں فلسطین کے حق میں مظاہروں اور دیگر مسائل پر طلباء کے خلاف کارروائی شروع کی تھی، جس کا آغاز کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل سے ہوا، جنہیں انتظامیہ نے جمعرات کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کا اعتراف کیا۔ اس وقت، ٹرمپ نے ان کی گرفتاری کو سراہا اور دعویٰ کیا کہ یہ پہلی گرفتاری ہے اور مزید ہوں گی۔
خلیل کی گرفتاری کے چند دن بعد، ٹرمپ کا دعویٰ سچ ثابت ہوا جب ایک اور فلسطین کے حق میں سرگرم طالب علم بدر خان سوری، جو جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک بھارتی محقق ہیں، کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے وکیل نے کہا کہ انہیں ان کی اہلیہ کے فلسطینی ہونے کے جواز مین انہیں گرفتار کیا گیا۔
سوری کی گرفتاری کے بعد، حکام نے ایک اور فلسطین کے حق میں سرگرم طالب علم، مومودو تال، سے کہا کہ وہ خود کو حکام کے حوالے کریں۔
25 مارچ کو، کولمبیا یونیورسٹی کی طالبہ یون سیو چنگ نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ بہار میں فلسطین کے حق میں مظاہرے میں شرکت کرنے پر اپنی ملک بدری کو روکنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔
اسی دن، رومیسہ اوزترک، جو ٹفٹس یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں، کو غزہ میں اسرائیل کے مظالم پر تنقید کرنے پر امریکی حکام نے دن دہاڑے حراست میں لے لیا تھا۔
گزشتہ ہفتے، حکام نے محسن مہدوائی، جو فلسطین کے حق میں سرگرم کارکن اور کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، کو انٹرویو کے دوران گرفتار کر لیا۔
دیگر طلباء، جیسے لقاع کوردیا، رنجنی سرینیواسن، اور علی رضا درودی یا تو حراست میں لیے گئے یا خود ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔