بھارت کے مقامی ذرائع ابلاغ اور پولیس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مسلح افراد کی سیاحوں پر فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے ہیں ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کے روز پہلگام میں کئے گئے اس حملے کو "گھناؤنافعل" قرار دیا اس کی مذمت کی اور حملہ آوروں کو "انصاف کے کٹہرے میں لانے " کے عزم کا اظہار کیا ہے"۔
یہ حملہ سری نگر سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سیاحتی علاقے پہلگام میں کیا گیا اور حملے میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیاہے۔
تاحال کسی بھی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم مسلم اکثریتی علاقے میں مزاحمت کار 1989 سےبھارتی قبضے کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔
یہ مزاحمت کار آزادی یا پاکستان کے ساتھ انضمام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کشمیر کا ایک چھوٹا حصّہ پاکستان کے زیرِ انتظام ہے اورپاکستان، بھارت کی طرح پورے علاقے پرحق کا دعویٰ کرتا ہے۔
"کچھ زخمی سیاحوں کو مقامی اسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے"۔
ایک تاریخی خطہ
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں تقریباً 35 لاکھ سیاحوں نے کشمیر کا دورہ کیا، جن میں سے زیادہ تر مقامی سیاح تھے۔
2023 میں، بھارت نے سری نگر میں سخت سیکیورٹی کے تحت ایک جی 20 سیاحتی اجلاس کی میزبانی کی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ حکام جسے "معمول اور امن" کہتے ہیں، وہ 2019 میں نئی دہلی کی جانب سے خطے کی محدود خودمختاری کی منسوخی کے بعد واپس آ رہا ہے۔
2019 میں مودی حکومت نے خطے پر نئی دہلی سے براہ راست کنٹرول نافذ کیا اور اس کی جزوی خودمختاری کو منسوخ کر دیا۔
بھارت کے اندازے کے مطابق، خطے میں مستقل طور پر 500,000 فوجی تعینات ہیں۔
بھارت اکثر پاکستان پر جنگجوؤں کی حمایت کا الزام لگاتا ہے۔
تاہم اسلام آباد، صرف کشمیر کے حقِّ خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت کے موقف کے ساتھ، اس الزام کی تردید کرتا ہے ۔