2013 سے رومن کیتھولک چرچ کے سربراہ اور فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی وجہ مشہور 'پوپ فرانسس'آج بروز سوموار انتقال کر گئے ہیں۔
ویٹیکن کے کارڈینل کیون فیرل کے جاری کردہ بیان کے مطابق ان کی عمر 88 سال تھی۔ اور ان کا انتقال آج صبح 7 بج کر 35 منٹ پرہوا ہے۔ روم کے بشپ، فرانسس، باپ کے گھر واپس لوٹ گئے ہیں۔ ان کی پوری زندگی خداوند اور اس کے کلیسا کی خدمت کے لیے وقف تھی"۔
تقریباً 1.4 ارب رومن کیتھولک عیسائی فرقے کے روحانی رہنما کی حیثیت سے فرانسس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل جیت لیے۔انہوں نے اسرائیل کی غزہ میں جاری نسل کش جنگ کے دوران بار بار جنگ بندی کی اپیل کی۔ اس جنگ میں اکتوبر 2023 سے اپریل 2025 کے درمیان، زیادہ تر عورتوں اور بچوں پر مشتمل، 51,200 سے زائد افرادقتل کئے جا چُکے ہیں۔
امریکی مذہبی امور کی ماہر ڈاکٹر جارڈن ڈیناری ڈفنز نے کہا ہے کہ "وہ، جنگ بندی، تشدد کے خاتمے، اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے بہت درست گو اور مستقل مزاج تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ فلسطینیوں کو مساوات اور خود مختاری کا حق حاصل ہے"۔
کیتھولک۔مسلم مکالمے، اسلاموفوبیا، اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک پر کتابوں کی مصّنفہ 'ڈفنز'نے کہا ہے کہ "پوپ ایک اہم اخلاقی آواز تھے، جو خاص طور پر کیتھولک افراد کو یاد دلاتے تھے کہ ہمارا ایمان ہمیں انصاف اور امن کے لیے جدوجہد کرنے کا درس دیتا ہے"۔
ویٹیکن ایک طویل عرصے، یہاں تک کہ فرانسس کے پوپ بننے سے پہلے ،سے دو ریاستی حل کا حامی رہا ہے ۔ مثال کے طور پر، پوپ جان پال دوم نے، جو 1978 سے 2005 تک چرچ کے سربراہ رہے، دعوی فلسطین کے ساتھ ہمدردی کو پوشیدہ نہیں رکھا۔
رومن کیتھولک چرچ نے فروری 2013 میں فلسطینی ریاست کو 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق تسلیم کیا، جس سے اسرائیلی وزارت خارجہ کو مایوسی ہوئی۔
ڈفنز، جو پوپ فرانسس اور اسلام پر ایک کتاب لکھ رہی ہیں، کہتی ہیں کہ مرحوم پوپ اس یقین سے متاثر تھے کہ فلسطینی ناانصافی کا شکار ہیں اور انہیں اپنے اسرائیلی ہمسایوں کے مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔
عام طور پر 'پوپ 'عالمی تنازعات میں جانبداری کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن پوپ فرانسس نے غزہ پر اسرائیل کی اندھا دھند بمباری کے بارے میں اپنے موقف کے اظہار میں کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔
وہ، اکثر غزہ کے بارے میں اپنی تکلیف کا اظہار ان الفاظ میں کرتے تھے کہ "اس قدر ظلم، بچوں پر مشین گنوں سے فائرنگ، اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری... یہ کس قدربے رحمی ہے!"
اسرائیل کی نسل کش جنگ کے ابتدائی دنوں میں، فرانسس نے فوری جنگ بندی کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ "براہ کرم حملے اور ہتھیاروں کا استعمال بند کریں۔ جنگ صرف "معصوم لوگوں کی موت اور تکلیف کا باعث بنتی ہے۔" انہوں نے کہا تھا کہ "جنگ ہمیشہ ایک شکست ہے! ہر جنگ ایک شکست ہے!"
جب 19 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی فضائی حملے نے غزہ میں یونانی آرتھوڈوکس چرچ کو نشانہ بنا کر چرچ میں پناہ گزین کم از کم 18 فلسطینی شہریوں کو قتل کیا تو فرانسس نے اسرائیل سے فوری طور پر جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ "میں غزہ کی سنگین انسانی صورتحال کے بارے میں سوچ رہا ہوں... میں اپنی اپیل دہراتا ہوں کہ راستے کھولے جائیں اور انسانی امداد کی مستقل ترسیل جاری رکھی جائے..."
ڈنر نے کہا کہ جب اسرائیل نے غزہ پر میزائل برسائے، تو پوپ فرانسس نے غزہ کی محصور مسیحی برادری کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ رات کے وقت غزہ کے واحد کیتھولک چرچ "ہولی فیملی چرچ" کو فون کرتے اور وہاں موجود مسیحیوں اور مسلمانوں کو دعائیں دیتے اور ان کی ڈھارس بندھاتے تھے۔
غزہ کی عیسائی برادری کے پادری "فادر گیبریل رومنلی" نے کہا ہے کہ محصور برادری کو ، خاص طور پر پانی، خوراک اور طبی سامان کی قلت کے دوران، پوپ کی غیر متزلزل حمایت سے بہت حوصلہ ملا۔
یہاں کے کلیسا میں تین پادریوں، پانچ راہباوں اور 58 معذور افراد سمیت 500 سے کم افراد پناہ گزین تھے۔ پناہ لینے والوں میں زیادہ تر مسلمان اور خصوصی دیکھ بھال کے محتاج بچے شامل تھے۔
ڈفنز کہتی ہیں کہ فرانسس،بذریعہ فون کال، غزہ کے پادری اور جماعت کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ یہ رابطہ اسپتال میں ان کی علالت کے دنوں میں بھی جاری رہا"۔
انہوں نے کہا ہے کہ"کیتھولک تعلیم واضح طور پر کہتی ہے کہ جب بھی معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو، ان کی خوراک روکی جا رہی ہو، انہیں مناسب پناہ میّسر نہ ہو اور جب طبی سہولیات تباہ کی جا رہی ہوں تو ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے حق میں بلند آواز میں بات کریں"۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "مجھے لگتا ہے کہ پوپ فرانسس نے غزہ کی صورتحال اور اسرائیل و فلسطین میں وسیع تر ناانصافیوں کے حوالے سے اپنے ردعمل کو عملی طور پر ظاہر کیا۔
کیا فرانسس غیر معمولی طور پر فلسطین کے حامی تھے؟
پوپ نے ان فلسطینیوں کے رشتہ داروں سے بھی ملاقات کی جو غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ملاقات کے بعد پوپ نے کہا کہ"یہ اب جنگ نہیں رہی، یہ دہشت گردی ہے"۔
بیت اللحم کی ایک فلسطینی اور مسیحی خاتون شیرین خلیل، جو اس گروپ کا حصہ تھیں جو پوپ سے ملنے گیا، نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اور دیگر لوگ "حیران" تھے کہ پوپ فرانسس کو غزہ کی جنگ کے بارے میں کتنی معلومات حاصل تھیں۔
ڈفنز کہتی ہیں کہ مسئلہ فلسطین پر فرانسس (2013-2025) اور ان کے پیش رو 'پوپ بینیڈکٹ شانزدہم' (2005-2013)، پوپ جان پال دوم (1978-2005)، اور پوپ پال ششم (1963-1978) کے موقف میں "بہت زیادہ تسلسل" رہا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ"1940 کی دہائی سے، ویٹیکن کا یہ موقف رہا ہے کہ فلسطینیوں کو خود مختاری اور اپنی ریاست کا حق حاصل ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ موقف صرف فرانسس کے دور میں ہی نہیں بلکہ ان کے پیشروؤں کے دور میں بھی جاری رہا ہے"۔
تاہم، فلسطینیوں کے لیے فرانسس کی آواز نمایاں طور پر بلند رہی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے اسرائیل کی جنگ کے دوران غزہ پر "بے مثال سطح کے تشدد" کا مشاہدہ کیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ " فرانسس کی زبان ان کے پیشروؤں کے مقابلے میں زیادہ صاف اور مضبوط رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس صورتحال میں ہم ہیں اس کی شدت زیادہ ہے"۔