اقوام متحدہ نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے خوفناک حملے کہ جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، کے بعد " ممکنہ حد تک تحمل" کا مظاہرہ کریں ۔
ترجمان اسٹیفان دوجارچ کا کہنا ہے کہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں ان حکومتوں کے ساتھ کوئی براہ راست رابطہ نہیں کیا، لیکن وہ صورتحال کو "بہت قریب سے اور بڑی تشویش کے ساتھ" دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہم نے جموں و کشمیر میں 22 اپریل کو بڑی تعداد میں شہریوں کے ہلاک ہونے والے دہشت گرد حملے کی مذمت میں بہت واضح موقف اختیار کیا ہے ۔" دوجارچ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ دونوں حکومتوں کو "زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں مزید بگاڑ نہ آئے۔"
انہوں نے مزید کہا، "پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی مسئلے کو پرامن طریقے سے اور بامعنی باہمی بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔"
اس واقعے نے بھارتی عوام کو ہلا کر رکھ دیا اور ان میں غصہ پیدا کیا، جس کے نتیجے میں اپنے ملک کے دشمن پاکستان کے خلاف کاروائی کے مطالبات سامنے آئے۔ بھارت، جس نے مقبوضہ کشمیرمیں 500,000 سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں، نے کہا کہ اس حملے کا تعلق "سرحد پار" پاکستان سے ہے، لیکن اس دعوے کے حوالے سے کوئی سرکاری ثبوت پیش نہیں کیا۔
پاکستان نے اس حملے سے کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کی ہے تو کچھ بھارتی میڈیا اداروں نے، جو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قریب سمجھے جاتے ہیں، نے غیر تصدیق شدہ دعوے میں کہا ہے کہ مزاحمتی محاذ نامی ایک غیر معروف گروپ نے مبینہ طور پر اس کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔
امریکہ کا قریبی جائزہ
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیمی بروس نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے ساتھ شانہ بشانہ ہیں اور تمام دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔
بروس نے کہا"صدر ٹرمپ اور سیکریٹری خارجہ روبیو نے واضح کیا ہے۔ امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور تمام دہشت گردی کے واقعات کی سخت مذمت کرتا ہے۔ ہم ان لوگوں کی زندگیوں کے لیے دعا کرتے ہیں جو اس واقعے میں ہلاک ہوئے اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا کرتے ہیں اور اس گھناؤنے عمل کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا امریکہ، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارت کاری کا استعمال کر رہا ہے، تو بروس نے کہا: "یہ ایک تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ہے، اور ہم اسے قریب سے دیکھ رہے ہیں، جیسا کہ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ ہم اس وقت جموں یا کشمیر کی حیثیت پر کوئی موقف اختیار نہیں کر رہے ۔"
پاکستان میں مظاہرے
دوسری جانب، بھارتی دھمکیوں کے خلاف جمعرات کو پاکستان بھر میں سینکڑوں افراد نے مظاہروں میں شرکت کی، جن میں آزاد کشمیر بھی شامل تھا۔
"اگر بھارت جنگ کرنا چاہتا ہے، تو کھل کر سامنے آئے،" تاجر اجمل بلوچ نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو لاہور میں ایک مظاہرے کے دوران بتایا، جو ایک مذہبی جماعت نے بلایا تھا اور جس میں تقریباً 700 افراد نے شرکت کی۔ لاہور وہ جگہ ہے ۔
بھارت نے کہا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دے گا، جو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کو وضع کرتا ہے، حالانکہ اس کے پاس دریا کے بہاؤ کو پاکستان کی طرف روکنے کے بڑے ذرائع نہیں ہیں۔
25 سالہ محمد اویس نے کہا کہ"پانی ہمارا حق ہے اور، خدا کے فضل سے، ہم اسے واپس لیں گے، چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔"