پاکستان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلح حملے کے بعد بھارت کی طرف سے اٹھائے گئے پاکستان مخالف سفارتی اقدامات کا جواب دینے کے لئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے گا۔
اعلیٰ سول اور فوجی حکام پر مشتمل سلامتی کمیٹی صرف بیرونی خطرات یا بڑے پیمانے کے دہشت گرد حملوں کی صورت میں بلائی جاتی ہے۔ پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو ہو گا۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب بھارت نے بدھ کے روز بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر "سرحد پار دہشت گردی" کی حمایت کا الزام لگانے کے بعد متعدد سفارتی اقدامات کیے۔ یہ الزامات مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر ایک مہلک حملے کے بعد لگائے گئے ہیں۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حملہ کشمیری مزاحمت کاروں کی طرف سے کیا گیا ہے۔ حملے نے جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے تعلقات کو گذشتہ کئی سالوں کی بدترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ نئی دہلی کے سفارتی اقدامات فوجی کارروائی کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔
بھارتی اقدامات میں پانی کی تقسیم کے معاہدے کی معطلی اور مرکزی زمینی سرحدی گزرگاہ کی بندش بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ منگل کے روز مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں 26 سیاح ہلاک ہوگئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک نیپالی اور باقی سب بھارتی تھے۔ یہ حملہ خطے میں پچھلے پچیس سالوں کا سب سے مہلک حملہ تھا۔
مشتبہ مزاحمت کاروں کی تلاش
بھارتی پولیس نے مزاحمت کاروں پر، حملے کا منصوبہ بنانے کا، الزام لگایا ہے۔ ابھی تک کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم بھارتی فوج حملہ آوروں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔
اطلاعات کے مطابق ہزاروں پولیس اور فوجی اہلکار علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں اور اضافی چیک پوسٹیں قائم کر دی گئی ہیں۔ گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے اور جنگلاتی پہاڑوں میں تلاشی کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کچھ علاقوں میں سابقہ مزاحمت کاروں کو پوچھ گچھ کے لئے پولیس اسٹیشنوں میں بلایا گیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق "منگل کے حملے کی تحقیقات کے سلسلے میں بھارتی پولیس نے پورے جموں و کشمیر بھر کم از کم 1,500 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔"
کشمیر ریزسٹنس کے نام سے ایک نامعلوم مزاحمتی گروپ نے سوشل میڈیا پر حملے کی ذمہ داری قبول کی اور بیان جاری کیا ہے کہ بھارتی حکام، متنازعہ علاقے میں 85,000 سے زائد "بیرونی افراد" کو آباد کر چکی ہے۔ گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ منگل کو نشانہ بنائے گئے افراد "عام سیاح" نہیں تھے بلکہ "بھارتی سیکیورٹی ایجنسیوں سے منسلک افراد تھے۔"
تاحال گروپ کے پیغامات کی غیر جانبدارانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔
پاکستان نے اس حملے کو بھارت کی متعصب حکومت کی جانب سے ایک "فالس فلیگ" آپریشن قرار دیا اور نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے خبردار کیا ہےکہ پاکستان، بھارتی اقدامات کا "جواب" دے گا ۔
ملکی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس واقعے کو "فالس فلیگ آپریشن" قرار دیا اور کہا ہے کہ "اس حملے میں "جعلی حملہ آپریشن " کا امکان موجود ہے اور ہم اس امکان کو کبھی مسترد نہیں کر سکتے، یہ امکان موجود رہے گا ۔
مسئلہ کشمیر
بھارتی زیر کنٹرول کشمیر میں مزاحمت کار 1989 سے نئی دہلی کے اقتدار کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان کشمیری، مزاحمت کاروں کے اس مقصد کی حمایت کرتے ہیں کہ اس علاقے کو یا تو پاکستانی اقتدار کے تحت لایا جائے یا ایک آزاد ملک بنا دیا جائے۔
بھارت کا اصرار ہے کہ کشمیر میں آزادی کی لہر "پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی" ہے۔ تاہم پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے، اور بہت سے کشمیری اسے ایک جائز جدوجہدِ آزادی سمجھتے ہیں۔ اس تنازعے میں ہزاروں کشمیری شہری، مزاحمت کار اور حکومتی فورسز اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ حالیہ دنوں میں وادی کشمیر میں تشدد میں کمی آئی ہے۔ حکومتی فورسز اور مزاحمتکاروں کے درمیان لڑائی زیادہ تر جموں کے دور دراز علاقوں، بشمول راجوڑی، پونچھ اور کٹھوعہ میں منتقل ہو گئی ہے، جہاں بھارتی فوج کو مہلک حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔